
ایک معروف روسی تاریخ داں نے اپنی پارٹنر کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے اور ان کے وکیل کے بقول انھوں نے یہ اعتراف دریا میں ایک بیک پیک کے ساتھ نکالے جانے کے بعد کیا ہے۔
روسی میڈیا کے مطابق اولیگ سوکولو جو 63 سال کے ہیں، شراب کے نشے میں لاش کے ٹکڑے کو بہاتے ہوئے دریا میں گر گئے تھے۔ تلاشی لینے پر ان کے بیک پیک سے ایک کٹا ہوا بازو ملا۔
اس کے بعد پولیس کو ان کی سینٹ پیٹرزبرگ میں رہائش گاہ سے ایک 24 سالہ خاتون انستاسیہ یشچنکو کی لاش ملی۔
تاریخ داں اولیگ سوکولو فرانسیسی جنرل نیپولین کے ماہر تصور کیے جاتے ہیں اور انھیں فرانس میں اعلیٰ ترین سویلین اعزاز سے بھی نواز گیا تھا۔

اولیگ کے وکیل الیگزنڈر پوچیوے نے فرانسیسی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ان کے مؤکل نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اولیگ اپنے کیے پر نادم ہیں اور تفتیش میں پوری طرح تعاون کر رہے ہیں۔
وہ اپنی 24 سالہ پارٹنر یشچنکو کے ہمراہ ایک فلیٹ میں سینٹ پیٹر سبرگ میں دریائے موئکا کے قریب تین سال تک رہے۔
وہ دونوں فرانسیسی تاریخ کے ماہر تھے اور یشچنکو سینٹ پیٹرسبرگ کی یونیورسٹی میں پوسٹ گریجوئٹ کی طالب علم تھیں اور ان دونوں نے مشترکہ طور پر کئی تصانیف مرتب کیں۔
وہ نپولین کے دور کے لباس پہننا پسند کرتے تھے اور اولیگ نے نپولین کا شاہی لباس پہن کر ایک ڈرامے میں ان کا کردار بھی ادا کیا تھا۔
پروفیسل سوکولو کو نیم منجمد دریا سے نکالے جانے کے بعد ہسپتال میں رکھا گیا جہاں سے خارج ہونے کے بعد وہ اب پولیس کی تحویل میں ہیں۔
ان پر یشچنکو کو قتل کرنے کا الزام ہے اور ان کے بیک پیک سے مقتولہ کے ہاتھ کے علاوہ ایک ’سٹن‘ پستول بھی برآمد ہوا۔
بے ہوش کر دینے والی گن کے علاوہ ان کے اپارٹمنٹ سے ایک کلہاڑی اور گولیاں بھی برآمد ہوئی ہیں۔
پروفیسر سوکولو نے پولیس کو بتایا کہ انھوں نے یشچنکو کے ساتھ جھگڑے کے بعد ان کو ہلاک کر دیا اور مقتولہ کے جسم کے ٹکڑے کر دیے۔

انھوں نے کہا کہ ان کا ارادہ تھا کہ لاش کو ٹھکانے لگانے کے بعد وہ نپولین کا لباس زیب تن کر کے سرِ عام خود کشی کر لیں گے۔
روسی ذرائع ابلاغ کے مطابق یونیورسٹی کے طالب علموں کے بقول پروفیسر کا رویہ کافی عجیب اور مشکوک سا تھا اور مقتولہ کئی مرتبہ پولیس سے ان کی شکایت بھی کر چکی تھی۔